سرزمین جہلم کے اولین آبادکار ڈو ویڈن تھے۔ اس کے بعد آرین، کول، سنتال اور منڈا قبائل بھی اس علاقے میں بود و باش اختیار کرنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ جہلم کے ابتدائی قبائل آگ کی پوجا (زرتشت) کیا کرتے تھے۔
جہلم کے نام کے بارے میں کئی روایات ہیں
ایک روایت کے مطابق جہلم کا نام ’’جل ہم‘‘ تھا۔ جل کا مطلب پانی اور ہم کا مطلب ٹھنڈا اور میٹھا۔ ایک روایت کے مطابق جہلم یونانی زبان میں ایک چھوٹا نیزہ نما ہتھیار کو کہا جاتا ہے۔ چونکہ یونانی فوج نے را پورس کا مقابلہ انھی نیزوں سے کیا اس لیے اس مقام کا نام جہلم پڑ گیا۔ 2/22
بعض روایات میں اس کا نام ’’جائے الم‘‘ بھی ہے یعنی پرچم کی جگہ ۔
ایک اور روایت کے مطابق حضرت سعید بن ابی وقاصؓ جو سعد بن وقاصؓ کے بھائی تھے انھیں دیگر صحابہ کے ساتھ چین روانہ کیا گیا۔ راستے میں جہلم شہر کے سامنے پہنچے تو چاند پوری آب و تاب سے روشن تھا اس کی چاندنی
میں انھوں نے شہر کا عکس دریا کے جھلملاتے پانی کی سفید چادر پر دیکھا تو بے ساختہ فرمایا ’’جلیلم‘‘ ان کے یہ الفاظ امر ہوگئے، لہٰذا شہر کو جہلم کہا جانے لگا۔
ہندوؤں کی سب سے قدیم رگ وید میں بھی جہلم کا تذکرہ موجود ہے۔ کہا جاتا ہے رگ وید کا کچھ حصہ جہلم میں لکھا گیا
اس کتاب میں جہلم کا نام ’’وتاسنتا‘‘ لکھا گیا ہے جس کو بعد میں ’’ذداستا‘‘ بھی کہا گیا۔
دارا اول ہندوستان میں آنے والا پہلا بادشاہ تھا اس کے بعد دارا ثانی اور پھر دارا ثالث برسر اقتدار آیا۔ دارا ثالث کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے ’’وادی جہلم‘‘ کو سب سے پہلے فتح کی
بعدازاں 327 قبل از مسیح میں سکندر ایران کو فتح کرنے کے بعد ہندوستان کی جانب بڑھا۔ پوٹھوہار کے حکمران راجہ امابی چن نے سکندر سے مصالحت کرلی یوں سکندر دریائے جہلم تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا، لیکن دریا کے پار کا غیور راجہ پورس سکندر سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار کھڑا تھا
راجہ امابی چن نے سکندر کا ساتھ اس لیے دیا کہ وہ راجہ پورس سے اس کی دشمنی چلی آ رہی تھی۔
جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ کو ’’معرکہ جہلم‘‘ یا جہلم کی جنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جنگ کا آغاز ہوتے ہی سکندر نے بائیں طرف کھڑے لشکر پر حملہ کردیا جہاں راجہ پورس موجود تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے
سکندر کا لشکر پورس کی فوج پر بھاری پڑ گیا اور اس کےساتھ ساتھ راجہ پورس کے ہاتھیوں پر بھی حملہ کردیا۔ ہاتھی واپس مڑے اور اپنی ہی فوج اور ساتھیوں کو کچلنے لگے۔ پورس بری طرح زخمی ہوا، اسے میدان جنگ سے باہر جاتے دیکھ کر سکندر کی فوج اس کی طرف بھاگی اوراسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔
پورس نے جو جواب سکندر کو دیا اس کو اچھا لگا اور سکندر نے پورس کو اپنا دوست بنا لیا۔ سکندر نے پورس کی سلطنت اسے واپس کردی اور وہاں دریا کے دونوں اطراف دو شہر آباد کیے۔ 326 قبل از مسیح میں سکندر جہلم سے روانہ ہوا۔
سلطان محمود غزنوی جہلم آیا تو اس نے ’’ٹلہ جوگیاں‘‘ سے جنگ کی 9/22
بعدازاں سلطان شہاب الدین غوری نے جب ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس جنگ میں بیس ہزار کھوکھروں نے اس سے جنگ کی اور کھوکھروں نے شکست کھائی۔
جہلم کا موجودہ شہر ساڑھے چار سو سال قدیم ہے۔ دوسری نمک کی کان جو کھیوڑہ میں موجود ہے۔ کھیوڑہ کا قصبہ انگریزوں نے 1876 میں آباد کیا۔
دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ 327 قبل از مسیح میں سکندر یہاں آیا اور اس کے گھوڑوں نے چمک چاٹا (چاٹنا شروع کیا) یوں کھیوڑہ کا نمک دریافت ہوا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سکندر کا گھوڑا یہاں مر گیا اور اس کا مدفن پنڈ دادن خان میں ہے۔
جہلم شہر دریائے جہلم اور جرنیلی سڑک کے سنگم پر واقع ہے۔ 22
دریا کے دوسری طرف سرائے عالمگیر کا قصبہ ہے جہاں ملٹری کالج جہلم واقع ہے۔ جرنیلی سڑک دونوں آبادیوں سے گزرتی ہے۔ 1849 میں برطانوی فوج پنجاب میں داخل ہوئی اور جہلم پر عملداری کی۔ برطانوی عہد میں جہلم میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں۔ یہاں ایک بڑی چھاؤنی تعمیر کی گئی۔ 12/22
1872میں تاریخی ریلوے پل دریائے جہلم پر تعمیر کیا گیا اور مختلف گرجہ گھر بنائے۔
1971 کی جنگ جہلم کے لیے ایک دکھ بھرا واقعہ تھی، جہلم کے ہزاروں جوان مشرقی پاکستان میں شہید ہوگئے
جہلم کے نام کے بارے میں کئی روایات ہیں
بعض روایات میں اس کا نام ’’جائے الم‘‘ بھی ہے یعنی پرچم کی جگہ ۔
ایک اور روایت کے مطابق حضرت سعید بن ابی وقاصؓ جو سعد بن وقاصؓ کے بھائی تھے انھیں دیگر صحابہ کے ساتھ چین روانہ کیا گیا۔ راستے میں جہلم شہر کے سامنے پہنچے تو چاند پوری آب و تاب سے روشن تھا اس کی چاندنی
ہندوؤں کی سب سے قدیم رگ وید میں بھی جہلم کا تذکرہ موجود ہے۔ کہا جاتا ہے رگ وید کا کچھ حصہ جہلم میں لکھا گیا
اس کتاب میں جہلم کا نام ’’وتاسنتا‘‘ لکھا گیا ہے جس کو بعد میں ’’ذداستا‘‘ بھی کہا گیا۔
دارا اول ہندوستان میں آنے والا پہلا بادشاہ تھا اس کے بعد دارا ثانی اور پھر دارا ثالث برسر اقتدار آیا۔ دارا ثالث کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے ’’وادی جہلم‘‘ کو سب سے پہلے فتح کی
بعدازاں 327 قبل از مسیح میں سکندر ایران کو فتح کرنے کے بعد ہندوستان کی جانب بڑھا۔ پوٹھوہار کے حکمران راجہ امابی چن نے سکندر سے مصالحت کرلی یوں سکندر دریائے جہلم تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا، لیکن دریا کے پار کا غیور راجہ پورس سکندر سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار کھڑا تھا
راجہ امابی چن نے سکندر کا ساتھ اس لیے دیا کہ وہ راجہ پورس سے اس کی دشمنی چلی آ رہی تھی۔
جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ کو ’’معرکہ جہلم‘‘ یا جہلم کی جنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جنگ کا آغاز ہوتے ہی سکندر نے بائیں طرف کھڑے لشکر پر حملہ کردیا جہاں راجہ پورس موجود تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے
سکندر کا لشکر پورس کی فوج پر بھاری پڑ گیا اور اس کےساتھ ساتھ راجہ پورس کے ہاتھیوں پر بھی حملہ کردیا۔ ہاتھی واپس مڑے اور اپنی ہی فوج اور ساتھیوں کو کچلنے لگے۔ پورس بری طرح زخمی ہوا، اسے میدان جنگ سے باہر جاتے دیکھ کر سکندر کی فوج اس کی طرف بھاگی اوراسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔
پورس نے جو جواب سکندر کو دیا اس کو اچھا لگا اور سکندر نے پورس کو اپنا دوست بنا لیا۔ سکندر نے پورس کی سلطنت اسے واپس کردی اور وہاں دریا کے دونوں اطراف دو شہر آباد کیے۔ 326 قبل از مسیح میں سکندر جہلم سے روانہ ہوا۔
سلطان محمود غزنوی جہلم آیا تو اس نے ’’ٹلہ جوگیاں‘‘ سے جنگ کی 9/22
بعدازاں سلطان شہاب الدین غوری نے جب ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس جنگ میں بیس ہزار کھوکھروں نے اس سے جنگ کی اور کھوکھروں نے شکست کھائی۔
جہلم کا موجودہ شہر ساڑھے چار سو سال قدیم ہے۔ دوسری نمک کی کان جو کھیوڑہ میں موجود ہے۔ کھیوڑہ کا قصبہ انگریزوں نے 1876 میں آباد کیا۔
دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ 327 قبل از مسیح میں سکندر یہاں آیا اور اس کے گھوڑوں نے چمک چاٹا (چاٹنا شروع کیا) یوں کھیوڑہ کا نمک دریافت ہوا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سکندر کا گھوڑا یہاں مر گیا اور اس کا مدفن پنڈ دادن خان میں ہے۔
جہلم شہر دریائے جہلم اور جرنیلی سڑک کے سنگم پر واقع ہے۔ 22
دریا کے دوسری طرف سرائے عالمگیر کا قصبہ ہے جہاں ملٹری کالج جہلم واقع ہے۔ جرنیلی سڑک دونوں آبادیوں سے گزرتی ہے۔ 1849 میں برطانوی فوج پنجاب میں داخل ہوئی اور جہلم پر عملداری کی۔ برطانوی عہد میں جہلم میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں۔ یہاں ایک بڑی چھاؤنی تعمیر کی گئی۔ 12/22
1872میں تاریخی ریلوے پل دریائے جہلم پر تعمیر کیا گیا اور مختلف گرجہ گھر بنائے۔
1971 کی جنگ جہلم کے لیے ایک دکھ بھرا واقعہ تھی، جہلم کے ہزاروں جوان مشرقی پاکستان میں شہید ہوگئے